مدینہ طیبہ میں تشریف لانے والے مہمانوں کی ضیافت
حضرت طلحہ بن عمرو رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں جب کوئی آدمی حضور ﷺ کی خدمت میں آتا اگر اس کا مدینہ میں کوئی آشنا ہوتا تو اس کے پاس قیام کرتا اور اگر اس کا کوئی آشنا نہ ہوتا تو اصحاب صفہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے ہمراہ ٹھہر جاتا‘ میں بھی انہیں لوگوں میں تھا جو اصحاب صفہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے پاس ٹھہر گئے تھے۔ میں نے ایک آدمی کو پایا جو رسول اللہ ﷺ کی جانب سے ایک مُد (تقریباً سوا چھ سو گرام) کھجور دو آدمیوں کے درمیان تقسیم کرتا‘ ایک روز آپ ﷺ نے نماز سے سلام پھیرا تھا کہ ہم سے ایک آدمی نے آپ ﷺ کو آواز دی اور عرض کیا یارسول اللہ ﷺ! میں ان کھجوروں نے ہمارے پیٹ میں آگ لگا دی اور ہمارے کتان کے کپڑے اس کی وجہ سے پھٹ گئے۔ (روایت میں جو لفظ خنف ہے‘ یہ یمنی چادر کی ایک قسم کی چادر ہوتی تھی)۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں یہ سن کر حضور نبی کریم ﷺ ممبر کی طرف متوجہ ہوئے اور ممبر پر چڑھ کر آپ ﷺ نے اللہ کی حمد وثنا کی اس کے بعد آپ ﷺ نے ان مصائب کا تذکرہ فرمایا جن سے آپ ﷺ کو اپنی قوم کے ہاتھوں دوچار ہونا پڑا تھا اور فرمایا کہ میں اور میرا ساتھی کچھ اوپر دس رات اس طرح رہے کہ ہمارے پاس کھانے کا سامان سوائے بریر کے اور کچھ نہ تھا( بریر پپلو کے پھل کو کہتے ہیں) اور آپ ﷺ نے فرمایا اس کے بعد ہم اپنے انصاری بھائیوں کے پاس آئے ان کا سب سے بڑا کھانا کھجور ہے‘ انہوں نے اسی سے ہماری غمخواری کی پس خدا کی قسم! اگر میں تمہارے لیے روٹی اور گوشت پاتا تو تم کو ضرور کھلاتا۔ لیکن عنقریب تم ایک ایسا زمانہ پاؤگے یا تم میں سے بعض ایک ایسا زمانہ پائیں گے کہ اس میں ایسے کپڑے پہنے گا جس طرح کہ کعبہ کا غلاف ہے اور صبح اور شام تمہارے پاس بڑے پیالے بھر بھر کر آیا کریں گے۔
محمد بن سیرین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں شام کے وقت حضور نبی کریم ﷺ اصحاب صفہ کے لوگوں کو اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین پر تقسیم فرماتے کوئی صحابی رضی اللہ عنہٗ ایک آدمی کو لے جاتا اور کوئی دو کو اور کوئی تین کو یہاں تک کہ کوئی دس کو لے جاتا‘ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہٗ ہر رات اپنے گھر والوں کی طرف ان میں سے 80 آدمیوں کو لے جاتے جن کو رات کا کھانا کھلاتے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں مجھ پر حضور نبی کریم ﷺ کا گزر ہوا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے ابوہریرہ! (رضی اللہ عنہٗ) میں نے کہا لبیک یارسول اللہﷺ! آپ ﷺ نے فرمایا اصحاب صفہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرف جاؤ اور ان کو بلالاؤ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں حضرات صفہ رضی اللہ عنہم اجمعین اسلام کے مہمان تھے‘ نہ ان کی پناہ کیلئے کوئی گھرانہ تھا اور نہ ان کے پاس کچھ مال تھا‘ جب حضور ﷺ کے پاس صدقہ آتا تو ان حضرات کے پاس اسے بھیج دیتے اور اس میں سے کچھ نہ لیتے تھے اور جب آپ ﷺ کی خدمت میں ہدیہ آتا تو آپ ﷺ آدمی بھیج کر ان حضرات کو بلاتے خود بھی اس میں سے لیتے اور ان سب حضرات کو اس میں شریک کرتے۔
حضرت طفخہ بن قیس رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم اجمعین کو حکم دیا کہ کوئی صحابی رضی اللہ عنہٗ ایک آدمی کو لے گیا اور کوئی دو کو یہاں تک کہ میں باقی رہ گیا ‘ہم لوگوں سے آپ ﷺ نے فرمایا چلو‘ چنانچہ ہم آپ ﷺ کے ہمراہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں پہنچے۔ آپﷺ نے فرمایا! اے عائشہ! (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) ہم لوگوںکو کھلاؤ اور پلاؤ… چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک قسم کا کھچڑا پیش کیا ہم لوگوں نے اسے کھایا‘ پھر وہ پنیر کے طریقہ کا حریرہ لائیں ہم لوگوں نے اسے بھی کھایا‘ اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا اے عائشہ! (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) ہم لوگوں کو کچھ پلاؤ چنانچہ وہ ایک چھوٹا پیالہ دودھ کا لائیں اور ہم لوگوں نے اسے پیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم لوگ چاہو تو یہیں رات گزارو اور اگر تم لوگوں کی مرضی ہو تو مسجد چلے جاؤ۔ حضرت طفخہ رضی تعالیٰ اللہ عنہٗ فرماتے ہیں ہم لوگوں نے عرض کیا کہ ہم مسجد چلے جائیں گے۔ حضرت طفخہ رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں پیٹ کے بل لیٹا ہوا تھا کہ میں نے دیکھا کہ ایک آدمی نے مجھے پیروں سے حرکت دی اور کہا کہ اس طرح کے لیٹنے کو اللہ پاک بہت بُرا سمجھتا ہے‘ میں نے غور سے دیکھا تو وہ حضور علیہ السلام تھے۔
حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ رمضان کے دن آگئے اور ہم اصحاب صفہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ تھے ہم روزہ رکھتے جب ہم افطار کرتے تو ہم میں سے ہر آدمی کے پاس اہل بیعت میں سے کوئی آتا اور ایک ایک کو لے جاتا اور شام کا کھانا اس کو کھلاتا‘ ایک رات ہم پر ایسی آئی کہ ہم لوگوں کے پاس کوئی نہ آیا اور اسی طرح صبح ہوگئی‘ اگلی رات بھی اسی طرح گزری اور کوئی نہیں آیا۔ ہم نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی اس بات کی آپ ﷺ کو خبر دی‘ حضور ﷺ نے اپنی ہر بیوی کے پاس آدمی بھیجا اور پوچھا کیا ان کے پاس کچھ کھانے کی چیز ہے؟ ازواج میں سے کوئی ایک بھی بیوی ایسی نہیں تھی جس نے قاصد کو یہ پیغام نہ دیا ہو کہ خدا کی قسم! ہمارے گھرمیں آج شام کیلئے کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کوکوئی جگروالا کھاسکے‘ آپ ﷺ نے اصحاب صفہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے کہا وہ سب جمع ہوئے اور آپ ﷺ نے دعا فرمائی ’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ وَرَحْمَتِکَ فَاِنَّھَا بِیَدِکَ لَایَمْلِکُھَا اَحَدٌ غَیْرُکَ۔ ترجمہ: اے میرے اللہ! میں تجھ سے تیرے فضل اور تیری رحمت سے سوال کرتا ہوں‘ رحمت تیرے ہاتھ میں ہے‘ تیرے سوا کوئی اس کا مالک نہیں‘‘۔
ابھی آپ ﷺ کی دعا ختم نہیں ہوئی تھی کہ ایک اجازت چاہنے والے نے اندر آنے کی اجازت چاہی جو ایک بھنی ہوئی بکری اور چپاتیاں لے کر حاضر ہوا‘ آپ ﷺ نے اس کے متعلق حکم فرمایا اور وہ ہم لوگوں کے سامنے رکھی گئی ہم نے کھایا یہاں تک کہ ہم سب کا پیٹ بھرگیا‘ اس کے بعد آپ ﷺ نے ہم سے فرمایا میں نے اللہ پاک سے اس کے فضل اور اس کی رحمت کا سوال کیا تھا یہ تو اللہ کا فضل تھا اور اللہ نے ہم لوگوں کیلئے اپنی رحمت کا اپنے پاس ذخیرہ رکھ چھوڑا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں